Thursday, October 26, 2017

تعلیم بذریعہ محفوظ عطیات۔

تحریر اقراء جاوید۔                                                                                                                                        
                                                               
دروازے پر دستک پر دستک ہورہی تھی باہر کھڑا بچہ صدا لگارہا تھا"صفائ کروالو, کچرا اٹھوالو۔" احمد نے دروازہ کھولا 
اور کچرا بچے کو دیا۔کچرا پھینکنے کے بعد بچے نے معاوضہ مانگنا چاہا تو احمد کے ابا جی نے یہ کہہ کر دروازہ بند کر دیا کہ تم لوگ حکومت اور عوام کو لوٹتے ہو اور پیسے بناتے ہو, ہمارے پاس ہر غریب کو دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔
اگلے دن روزہ افطار کرنے کے بعد ایک بھکاری جس کا ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا, بھیک مانگ رہا تھا احمد کے ابا جی نے اسے کچھ پیسے دیئے جس کے بعد وہ آگے چلا گیا۔ چونکہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور عیدالفطر بھی قریب تھی زکوۃ اور فطرہ جیسے فرائض بھی ادا کرنے تھے۔ ابا جی کی کوشش تھی کہ یہ رقم ایسے شخص کو دی جانے جو اس کا اصل حقدار ہو لیکن اس زمانے میں اصل مستحقین کا معلوم ہونا نہایت مشکل کام ہے۔یہی وجہ تھی کہ ابّا نے معمول کے مطابق آنے والے فقیر کو ہی رقم دینا مناسب سمجھ ا۔
            آج عیدالفطرکا دن تھا اور ایک بڑی خطیر رقم فطرے کی مد میں دی جارہی تھی کیوں نہ دی جاتی اپنی خوشیوں میں غریبوں کو یاد رکھنا ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ بھی ھے ۔ یقینا مختلف مذاہب کے لوگ بھی اپنے تہواروں پر فلاحی کاموں کیلئے اسی طرح رقم دیتے ہیں۔ بہرحال احمد کے ابّا عید کی نماز کے بعد گھر کو روانہ ہوئے۔
"دھماکے میں کئ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق دھماکا خود کش تھا اور ا۔ب۔ج تنظیم کے تین کارکن اسکے سہولتکار کے طور پر کام کررہے تھے اور گذشتہ کئی دنوں سے فطرہ, زکوۃ اور دیگر عطیات جمع کرنے میں سرگرم تھے۔"
احمد کے ابا جی یہ خبرسن کر بہت غمگین ہوئے کیونکہ نجانے کتنےلوگ آج عید کے بجائے سوگ منارہے تھے۔ وہ مسلمان جوکل تک عید کے کپڑوں کی خریداری میں مصروف تھے , آج ان کے لیے کفن کا انتظام کیا جارہا تھا۔ احمد کے ابا سوچ رہے تھے کہ کہیں ان قیمتی جانوں کے ضیاع میں انکے گھر کا حصہبھی تو نہیں ؟ کیا وہ ایسے دوسرے لوگ معذور و لاچار سمجھ کر بغیر معلومات کیے امداد کر کے ملک تو تباہ نہیں کررہے ؟
بدقسمتی سے ہمارےمعاشرے میں لوگ غریب کو خودمختار بنانے کے بجائے بھیک دینا مناسب سمجھتے ہیں اس سے بڑھکر یہ کے وہ عطیات دیتے وقت مستحق کا صحیح تعین بھی نہیں کرتے ہیں۔یقینا اس کا سبب علم و آگہی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا کر عطیات کے نام پر رقم بٹور کر اسے ملک دشمن سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے یوں عوام بھی دہشتگردی کے بلاواسطہ سہولتکار بن جاتے ہیں۔ عطیات دینا مشکل کام نہیں لیکن اسے کہاں اور کسے دیا یہ ایک ذمہ داری ہے جو ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔گزشتہ سالوں کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں دیئے جانےوالے عطیات کی مجموعی رقم 650 بلین روپے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ رقم بحالی کے کاموں میں صرف ہوئی یا ہماری لاپرواہی کی وجہ سے ملک دشمن عناصر بھی اس سے مستفید ہوئے؟
ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح 60 فیصد ہے یعنی 40 فیصد لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنا باقی ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25-A کے تحت ہر 3 سے  16 کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم لازمی اور مفت ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں غریب بچوں کی تعلیم پر انتہائی کم رقم عطیات کی صورت میں دی جاتی ہے کیونکہ یہ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اپنے علاقوں میں ادھر ادھر گھومنے والے اور سڑکوں پر کام کرنے والے غریب بچوں کی تعلیم کو فروغ دیں۔ اسطرح سے ہم نہ صرف اپنے عطیات کو محفوظ بناسکتے ہیں بلکہ تعلیم کو اپنے عطیات کے بہترین استعمال کے طور پر بھی متعارف کرواسکتے ہیں۔ اور ایسے بچوں کو معاشرے کا ایک مفید شہری بھی بناسکتے ہیں تا کہ وہ بھی ریاست کی خوشحالی کیلئے کام کریں۔

جیسا کہ پاکستانی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئ نے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں کہا:-

No comments:

Post a Comment