Saturday, June 11, 2016

کم عمر ی کی شادی ایک کم فہم لیکن پر تشدد مسئلہ



جب تمدن اور ثقافت پر فرسودہ روایات غالب آجائیں تو معاشرہ زوال کی طرف گامزن ہو جاتا ہے کم عمری کی شادی بھی ایک فرسودہ روایت ہے جس میں لڑکی اور لڑکے دونوں سے ان کے بچپن کی خوشی کا حق چھین لیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ واحد جرم ہے جو دن کی روشنی میں ایک مجمع کی صورت میں اور ڈھول کی تھاپ پے کیا جاتا ہے۔
ہمارے اردگرد لاتعداد افراد ایسے ہیں جو اس نشاط انگیز عہد کی دلچسپیوں اور مشاغل کی اہمیت سے نا واقف ہیں یہ عرصہ دس سال سے پندرہ یا اٹھارہ سال تک سمجھا جائے تو اس دوران بچہ سکول یاکالج لائف انجوائے کر رہا ہو تا ہے اگر وہ دینی تعلیم حاصل کر رہا ہے تو قرآن و حدیث کے علوم میں مکمل ذہنی قویٰ اور یکسوئی کے ساتھ مصروف ہوتا ہے اگر وہ ایک کسان ہے تو اپنے والد سے یہ فن سیکھ رہا ہوتا ہے اسی طرح معاشرے کے دستکاروں لوہے ، لکڑی ، قالین ، مٹی کے برتن ، پکوانوں سے وابستہ کروڑوں افراد کے بچے بھی نہ صر ف اپنا آبائی پیشہ سیکھ رہے ہوتے ہیں بلکہ زندگی کے دیگر مشاغل ، تیراکی ،علاقے کے مطابق سپورٹس، سیر وتفریح وغیرہ میں مصروف ہوتے ہیں جس سے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت نارمل رہتی ہے کالجوں میں بھی اسی لیے بچوں اور بچیوں کو سپورٹس کی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جاتا ہے ان کی ذہنی نشوونما کے لیے مباحثے ، مذاکرے ، مشاعرے منعقد ہوتے ہیں لیکن کم عمری کی شادی کا شکار ہونے والے بچے شروع ہی سے روگی ہوجاتے ہیں بالخصوص لڑکیاں ذہن کے علاوہ جسمانی نقصانات کے روگ میں بھی مبتلا ہو جاتی ہیں لیکن اس حقیقت کے باوجود فرسودہ رسوم کے دباؤ کے تحت اس تعداد میں اضافہ ہو رہاہے اس کی ایک وجہ غربت بھی بتائی جاتی ہے کیونکہ ہمارے دیہی معاشرے میں ایک لڑکی سلائی کڑھائی کے بھی بہت کم مواقع رکھتے ہے اور اگر اسے یہ مواقع ملے بھی تو اس کی آمدنی بہت کم ہوتی ہے جس کی بنا پر باپ کو اس کی کفالت کرنا پڑتی ہے چنانچہ ہر باپ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلد گھر سے رخصت ہو جائے تاکہ گھر پر اضافی بوجھ نہ رہے چنانچہ جہیز اگر اسے ادھار بھی اٹھانا پڑے تو وہ ایسا کر دیتا ہے تاکہ بچی کمانے والے شوہر کے گھر سُکھی رہے اور سماجی طور پر بھی اس کو تحفظ مل جائے کیونکہ برائی کا سرکل بھی اذہان پر ایک انتہائی شدید پریشر ڈالتا ہے لیکن اس کا نتیجہ سعیِ لا حاصل ہے ایسی بہت سی رپورٹس اخبارات میں آچکی ہیں جس میں کم عمری کی شادی کے ہولناک نتائج سامنے آتے ہیں زچگی اور حاملہ حالت میں خواتین کی ہلاکت جن میں اہم ترین ہے ایسی لڑکیوں کو شادی شدہ دیکھ کر آپ کیا سوچیں گی جن کی عمر سکول جانے کی ہو کھیلنے کی ہو اور جنہیں گھر میں غلاموں اور کنیزوں کی طرح سارا سارادن کام کرنا پڑتا ہو جس میں شوہر کے علاوہ ا س کے رشتے دار بھی شامل ہیں بعض بچیوں کے سکول چھوڑنے کی وجہ سے بھی ان کو جلد ڈولی پر بٹھا کر رخصت کر دیا جاتا ہے بعض کو اس لیے سکول چھوڑنا پڑتا ہے کہ انکی شادی کر دی جاتی ہے یوں کسی بھی حکومت کی طرح موجودہ حکومت کو بھی شرح خواندگی میں اضافے میں کم عمری کی شادی ایک بڑی رکاوٹ بن چکی ہے خاندانوں کو اپنے رویے بدلنے ہوں گے تاکہ بچپن کی عمر صرف تعلیم کے حصول یا ہنر کے سیکھنے میں گزرے اس سلسلے میں خاندان کے سربراہ کو بصیرت سے کام لینا ہو گا تاکہ ان کے بچے بڑے ہو کر معاشرے کے فعال اور مفید کارکن بنیں وہ معاشرے پر بوجھ نہ بنیں اور گھر کی سبزی ، کپڑوں کے لیے نمبروں کا جوا اور چوری چکاری پر نہ لگ جائیں یہ احساس اور آگاہی ہمیں ایک دوسرے تک پہنچانی چاہیے اس سلسلے میں پڑھے لکھے طبقوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے بالخصوص ڈاکٹرز او ر لیڈی ڈاکٹرز جن کی رسائی والدین تک آسانی سے ہو جاتی ہے ایک بہتر پاکستانی مستقبل کے لیے اپنا کردار ادا کریں نہ صر ف آگاہی دیں بلکہ اصرار کریں کہ کم عمر کی شادی بربادی سے کم نہیں اور یہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے جس کے جسمانی ، ذہنی ،نفسیاتی اور جذباتی مضر اثرات زندگی کو روگ بنا دیتے ہیں کیونکہ کم عمرحاملہ لڑکی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہتی ہے اور اگر بچ بھی جائے تو اس کی ساری زندگی علاج معالجے کی تدابیر میں گزرجاتی ہے افسوسناک امر یہ ہے کہ جب تک میڈیا کو پتہ نہ چلے جنوبی پنجاب کے علاقوں میں کم عمری کی شادیاں رواج بنی ہوئی ہیں کئی کیسز میں دس سے کم سالہ بچی کی شادی میڈیا نے مداخلت کر کے رکوائی جبکہ میڈیا کے ہمراہ سوشل ورکرز بھی ہوتے ہیں یہ تاثر عام ہے کہ شادی ہوتے ہی ایک خاندان بن جاتا ہے اور اقتصادی انتظام لڑکیوں کو بنابنایا مل جاتا ہے اسی وجہ سے ان کے حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے اس سلسلے میں پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بیسیویں صدی کے آغاز ہی سے کم عمر کے لڑکوں کو اس تباہ کن رسم سے بچانے کے لیے اصلاحات کی گئیں کیونکہ نہ صرف صحت اور نفسیات پر مضر اثرات ہو رہے تھے بلکہ خاندان کا حجم بھی بڑھتا جا رہا تھا چنانچہ "ٹین ایج پریگنینسی ''جو ایک کم عمری کی شادی کا نتیجہ ہوتی ہے پر پابندی لگائی گئی حالانکہ یہ لفظ غیر اخلاقی تعلقات کا تصو ر لیے ہوئے ہے لیکن جنوبی پنجاب میں جہاں معاشرہ شرم وحیا کی خوبیاں رکھتا ہے میں ایسی پریگنینسی کم عمری کی شادی کی وجہ سے ہوتی ہے ایک اور فیکٹر انتہائی اہم ہے کہ ہم میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ سب کے لیے تعلیم اور سب کے لیے صحت ہو لیکن اس کے باوجود ہم کم عمری کی شادی کو اس کی بڑی رکاوٹ نہیں سمجھ پار ہے جیسا کہ پہلے بتا دیا گیا ہے کہ سکول چھڑا دیا جاتا ہے اور بچے کے عمر کے اوائلِ شباب کے سال باورچی خانوں میں گل سڑ جاتے ہیں اس لیے ثقافتی او ر معاشرتی سطح پر کم عمری کی شادی پر پابندی کی قانون سازی کر کے نئی نسل کو اس روگ سے بچایا جا سکتا ہے صوبہ سندھ میں ایسی قانون سازی ہو چکی ہے تاہم اصلاحات کے باوجود چھپ چھپا کر کم عمری کی شادیاں کر دی جاتی ہیں حالانکہ وہاں کم عمری کی شادی 18 سال سے کم عمر شخص کی شادی سمجھی جاتی ہے تاکہ ایک صحت مند اور بہتر روزگار والا نوجوان شادی کے عمل سے گزرے اور یہ شادی کوئی روگ نہ بنے تاہم یہ ذمہ دار ی والدین کی ہے وہ شادی سے پہلے اپنے بچوں اور بچیوں کو ذہنی ، اخلاقی، روحانی پاکیزگی کی تربیت دیں ایسا سکولوں میں بھی ہونا چاہیے جس میں میٹر ک اور اس کے بعد ہائر سکینڈری لیول پر انہیں اسلام کی تعلیمات شرم و حیا، پاکیزگیِ اخلاق اور گمراہی کی دلدل سے دوری کی خصوصی تربیت کی جائے تاکہ ہم ایک اچھی قوم کے طور پر اپنے مستقبل کومحفوظ ، صحت مند ، تعلیم یافتہ اور دیگر سہولتوں سے لیس دیکھ سکیں۔ جنوبی پنجاب کی اگر بات کریں تو بعض علاقوں میں کم عمری کی شادی کی شرح45 سے60 فیصد تک ہے کیونکہ ان علاقوں میں بنیادی ضروریات نہ ہونے کے مساوی ہیں۔
اس سلسلے میں قانون ساز اداروں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ اکثر لڑکیاں اغوا کر کے کم عمری کی شادی کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں جس سے اغوا کار چند سکوں کے عوض بچی کا مستقبل تباہ کر دیتے ہیں اسی طرح ایسا ماحول تشکیل کرنا علماء اور سماجی ورکروں کا فرض ہے کہ کم سے کم ایسی ایف آئی آر ز کا درج ہونا بند ہو جائے جو بچیوں کے ساتھ بد اخلاقی پر مبنی ہو ںیا پھر ایسی سزائیں ملزمان کو دی جائیں کہ ایسی ایف آئی آرز کا موقع ہی سامنے نہ آئے معاشرتی رویوں میں بھی تبدیلی لانا ہو گی قوم ، قبیلہ ، مسلک،خاندان کی بجائے کسی کے گمراہ ہونے کی بنا پرمعاشرہ اس سے دوری اختیار کر ے تاکہ اسلامی پاکیزہ اوصاف میں نکھرا ہو ا انقلابی معاشرہ ابھر کر سامنے آئے ایسی شادیوں پر بھی پابندی لگائی جائے جس میں لین دین ہوتا ہے وہ چاہے کسی صوبے یا علاقے میں ہو رہی ہوں تمام شادیوں کی رجسٹریشن ہونی چاہیے تاکہ کم عمری کی بلا لڑکے یا لڑکی کی صحت اور مستقبل دونوں کو نہ نگل سکے سندھ (CMRA 2014)کی طرح دیگر صوبوں میں بھی کم عمری کی شادی کے خلاف مضبوط قانون سازی کی جائے اور پنجاب میں CMRA 2015 بل کو مناسب ترامیم کے ساتھ دوبارہ پاس کیا جائے اور اس کی implementations کو بچوں کے بہترین مفاد میں لاگو کیا جائے #

By Muhammad Shahzad
Pakistan

No comments:

Post a Comment