Saturday, June 11, 2016

Child Marriages

تحریر: محمد شہزاد، تحصیل شورکوٹ، جھنگ، تعلیم: ماسٹر (سوشیالوجی) رابطہ نمبر: 0305-6945369

پاکستان میں شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، ووٹ ڈالنے اور ہر قسم کے معاہدے کیلئے کسی بھی شخص کا 18سال کی عمر سے زائد ہونا ضروری ہے۔18سال کی عمر سے پہلے ہمیں یہ سہولیات میسر نہیں ہو سکتیں کیونکہ پاکستان اور دنیا کے تمام ممالک اور اداروں کے قوانین کے مطابق18سال سے کم ہر شخص کو بچہ سمجھا اوراس کے ساتھ بچوں والا سلوک کیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے 1989 کے بچوں کے حقوق کے متعلق معاہدے کی اشاعت اور اس پر پاکستان کے دستخط کے بعد پاکستان میں بھی ہر 18سال سے کم عمر شخص کو بچہ تصور کیا جاتا ہے۔اس کی آسان مثال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اگر کوئی 18سال سے کم عمر شخص جرم کرتا ہے تو اس کو بچوں کی مخصوص عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے اور اسکی سزائیں بھی نرم ہوتی ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان میں ایک ایسا قانون بھی موجود ہے جو بچوں پر ایک بہت بڑی زمہ داری ڈالنے کی حمایت کرتا ہے۔یہ قانون بچوں کی شادیوں کے متعلق ہے جو 1929میں بنا اور پھر پاکستان نے اسے اپنا لیا۔ اس قانون کے مطابق لڑکے کی شادی کی کم از کم عمر 18سال جبکہ لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر16سال متعین کی گئی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں صرف ایک ہزار روپیہ جرمانہ اور ایک ماہ کی قید ہے۔لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بچوں کی شادیاں ہمارے اردگرد عام طور پر ہوتی رہتی ہیں اور ہم اس کی روک تھام میں اپنا کردار ادا نہیں کرتے۔اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جیسے کہ رسم و رواج، وٹہ سٹہ، غربت اور بعض اوقات لوگ مذہب کی مدد لیتے ہوئے اسے سر انجام دیتے ہیں۔
لیکن اگر اس تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو وہ بہت بھیانک ہے۔اس کے درج زیل نقصانات کو ہم ہر سطح پر سمجھ سکتے ہیں۔
*جب کسی بھی بچہ کی شادی چھوٹی عمر میں ہوتی ہے تو سب سے پہلے اسکی صحت کا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے۔خاص طور پر بچیوں کا جسم ابھی پرورش پا رہا ہوتا ہے اور میڈیکل سائنس بھی کہتی ہے کہ افزائش جسم اور بلوغت کا عمل18سال کی عمر تک مکمل ہوتا ہے�ۂ*ہم بچوں کی جلد شادی کر کے انہیں تعلیم جیسی نعمت سے محروم کرتے ہیں اور معاشرے کے برابر ترقی کے مواقع سے ہٹا دیتے ہیں۔تعلیم کی قدروقیمت سے ہر شخص بخوبی واقف ہے اور سمجھتا ہے کہ آج کے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے جتنی بھی تعلیم ہو وہ کم ہی ہے۔بلاشبہ ایک تعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچوں کی بہتر تربیت کر سکتی ہے اور پڑھی لکھی مائیں ہی ایک بہترین قوم بنا سکتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ایک فرد کی تعلیم صرف ایک شخص کی تعلیم ہے جبکہ ایک عورت کی تعلیم پورے خاندان کی تعلیم ہے۔
*دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کی شرح اموات صفربھی ہے جبکہ ہمارے ہاں ہر سال ہر 1000میں سے 70بچے اپنی زندگی کے پہلے سال میں ہی وفات پاجاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں ہر سال ہر ایک لاکھ میں سے 276 مائیں دوران زچگی وفات پا جاتی ہیں۔اس 276 میں سے 180مائیں وہ ہوتی ہیں جنکی عمر 16سال یا اس سے کم ہوتی ہے۔جبکہ ہمارے قریبی ہمسائے جاپان میںیہ تعداد صرٖف5ہے۔ضلع وہاڑی میں41%بچے اپنے مطلوبہ وزن سے کم وزن میں پیدا ہوتے ہیں۔ بچوں اور ماؤں کی شرح اموات میں صحت کی سہویات کی کمی اور لڑکیوں کی چھوٹی عمر میں شادی کرناسرفہرست ہے۔اگر ہم بچوں کی چھوٹی عمر میں شادی کی روک تھام پر بات کریں گے تو یقینی طور پر ہمارے اس عمل کی بدولت ہماری ہی ماؤں اور ہمارے ہی بچوں کی زندگی بچ سکے گی۔اوربلاشبہ ایک فرد کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔
*جب بچوں اور خاص طور پر بچیوں کی چھوٹی عمر میں شادی ہو گی توانہیں تعلیم و تربیت کے مواقع کم مل سکیں گے۔جب تعلیم و تربیت کم ہو گی تو اسے اپنے سسرال میں پیش آنے والے مسائل کی تعداد بہت زیادہ ہو گی۔ان مسائل کی بناء پر ہمارے معاشرے میں گھریلو تشدد، جسمانی و ذہنی دباؤ اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔جب ہمارے بچے تعلیم و تربیت سے آراستہ ہونگے تو نہ صرف اپنی زندگی میں آنے والے مسائل سے بہتر انداز میں نمٹ سکیں گے بلکہ اپنی زندگی کوبھی بہتر گزار سکیں گے۔
*جب بچوں کی چھوٹی عمر میں شادی ہوتی ہے تو ان پر بہت ساری ذمہ داریاںآجاتی ہیں جو ان سے انکا خوبصورت بچپن چھین لیتی ہیں اور انہیں زمانے کی بے رحم موجوں میں دھکیل دیتی ہیں۔اگر اس ذمہ داری کی بجائے انہیں تعلیم دلوائی جاے اور انکی بہترین تربیت کی جائے تو انکا آنے والا کل یقینی طور پربہت بہتر اور خاندان کیلئے باعث مسرت ہوگا۔ تعلیم نہ صرف انسان کی شخصیت کو سنوارتی ہے بلکہ اسکی عزت اور وقار میں بھی اضافہ کرتی ہے کیونکہ تعلیم ہر مرد اور عورت پرفرض ہے۔
پاکستان کے فیملی لاء اور یونین کونسل ایکٹ 2001,2002کے مطابق نکاح خوان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ 18سال سے کم عمر کسی شخص کا نکاح نہ پڑھائے لیکن گاؤں کی سطح پراس کا خیال نہیں کیا جاتا اوربچوں کی زندگی کو بے شمار مسائل کی جانب بھیج دیا جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ماؤں اور بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے، گھریلو مسائل کو کم کرنے، صحت مند بچوں اور معاشرے کے قیام کیلئے یہ ضروری ہے کہ شادی کی کم از کم عمر18سال ہو اور اس کیلئے نکاح نامہ کے ساتھ شناختی کارڈ کا لف ہونا ضروری قرار دیا جائے۔سندھ اسمبلی 2014 میں یہ قانون پاس کر چکی ہے اورپنجاب اسمبلی نے 2015 میں قانون سازی کی ھے جس کے مطابق والدین اور نکاح خوان کیلئے3 سال تک سزا اور 25000 تک جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ اس نکاح خواں کا لائسنس منسوخ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
اس طرح سے والدین، معاشرے کے سرکردہ افراد اور نکاح خواں حضرات پر اخلاقی، معاشرتی اور قانونی زمہ داری ہے کہ وہ اوپر بیان کی گئیں وجوہات کی بناء پر بچوں کی شادیوں کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے معاشرے خصوصأ بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں ہمارا ساتھ دیں۔

No comments:

Post a Comment