Tuesday, October 10, 2017

'اوہ موچی تو کی کرنا پڑھ کے، پڑھ کے وی تو موچی ہی رہنا'



'جب میں نے پانچویں جماعت کا امتحان پاس کیا تو والد صاحب نے کہا کہ مزید پڑھائی کرنے کی بجائے میرے ساتھ کھیتی باڑی اور جوتوں کی سلائی کا کام کیا کرو تاکہ گھر کا چولہا جلتا رہے، لیکن میرا پڑھائی کا شوق اس وقت مزید بڑھ گیا جب پانچویں کلاس کے رزلٹ میں 490 نمبر حاصل کیے۔'
یہ الفاظ ہیں محمد عثمان کے، جن کی جوتے سلائی کرتے ہوئے کی تصویر، میٹرک کا رزلٹ کارڈ اور ان کے خستہ حال گھر کے بیرونی حصے کی تصویر گزشتہ روز درج ذیل چند حروف کے ساتھ وائرل ہو گئی۔
سوشل میڈیا کے مقامی بیج نے محمد عثمان کی تصویر کے ساتھ لکھا ''کوٹ دیوا مل ساہیوال کا باہمت طالب علم جو دوران تعلیم جفت سازی کا کام کرتا ہے، محمد عثمان کو مبارک، جس نے غربت اور مشکل حالات میں اپنی مدد آپ کے تحت 1022 نمبر حاصل کر کے میٹرک میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا، حکومت اور تعلیمی اداروں کو اس طالب علم کی حوصلہ افزائی کے لیے عملی میدان میں آنا چاہیئے۔"
اس تحریر کے جواب میں فیس بک یوزر محمد عثمان اسلم چوہدری نے کمنٹ کیا کہ 'ماشاءاللہ، اچھا اب حکومت اپنے ''ضروری" کام چھوڑ کر اس کی حوصلہ افزائی کرے، واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکھاری نے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے طالب علم محمد عثمان سے ان کی پڑھائی اور دیگر حالات جاننے کے لیے بات کی۔
محمد عثمان ساہیوال کے نواحی علاقے کوڑے شاہ کے قریب 'کوٹ دیو مل' کے رہائشی ہیں، جنہوں نے غربت اور مفلسی کے حالات میں میٹرک کے امتحان میں گیارہ سو میں سے ایک ہزار 22 نمبر حاصل کیے۔
عثمان نے بتایا کہ وہ تین بہن بھائی ہیں، ان کے والد 'کوٹ دیو مل' میں ہی گھر کے باہر جوتے مرمت کرنے کا کام کرتے ہیں اس کے علاوہ کسی زمیندار کی زمین پر آٹھویں حصے پر کام کرتے ہیں۔
"میں نے میٹرک سائنس مضامین کے ساتھ کی اور پہلی جماعت سے میٹرک تک تعلیم 'کوٹ دیو مل' کے گورنمنٹ ہائی سکول سے حاصل کی۔"
انہوں نے بتایا کہ پانچویں کا امتحان دینے کے بعد ان کے والد نے مزید تعلیم سے روکنا چاہا کہ وہ بھی ان کے ساتھ محنت مزدوری میں والد کا ہاتھ بٹائے، "والد صاحب کا کہنا تھا کہ مزید تعلیم کے لیے اخراجات نہیں برداشت کر سکتے۔"
عثمان بتاتے ہیں کہ پانچویں کے رزلٹ کے بعد جب وہ سکول گئے تو سکول کے استاد حافظ فضل الرحمن نے انہیں کہا کہ وہ مزید اپنی تعلیم جاری رکھیں اور تعلیمی اخراجات کی فکر چھوڑ دیں، استاد کی بات سننے کے بعد انہوں چھٹی جماعت میں داخلہ لے لیا۔
"اساتذہ کی محنت سے میں نے ساتویں اور آٹھویں جماعت کا امتحان ایک سال میں ہی دیا۔"
عثمان نے بتایا کہ وہ سکول سے واپس آ کر والد کی جگہ اپنے گھر کے باہر پلاسٹک کا تھیلا بچھا کر بیٹھ جاتے اور کوئی جوتا سلائی کروانے یا پالش کروانے آ جاتا تو وہ جوتے سلائی اور پلالش کرتے، جب فارغ ہوتے تو وہی بیٹھے کتابیں کھول کر پڑھتے رہتے۔
"جوتے سلائی یا پلالش کر کے دن میں کبھی پچاس، کبھی سو اور بہت کم دن ایسے ہوں گے جب ڈیڑھ سو روپے کما لیتا ہوں۔"
اکثر اوقات گزرنے والے چند لوگ انہیں مزاق کرتے ''اوہ موچی تو کی کرنا پڑھ کے، پڑھ وی گیا تے موچی ہی رہنا توں۔'' عثمان کہتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کی ان باتوں کی کبھی پروا نہیں کی۔
عثمان نے بتایا کہ سنہ 2005ء میں ان کے گھر کا بجلی کا میٹر بل ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے کاٹ دیا گیا اور 12 سال بعد اب انہیں بجلی میسر آئی، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے رات کو گھر کے سامنے موجود دکان کے باہر لگے بلب کی روشنی میں بیٹھ کر پڑھتے رہے۔
"میٹرک کے امتحان کی تیاری کے دوران جب رات کو لائٹ بند ہو جاتے تو میرے والد مجھے گھر بلا کر چراغ جلا دیتے اور میں اس چراغ کی روشنی میں امتحان کی تیاری کرتا۔"
مزید بتایا کہ ان کے پاس نویں اور دسویں کا داخلہ بیجھنے کے لیے رقم کا انتظام نہ تھا تو سکول کے اساتذہ نے اپنے پاس سے رقم اکھٹی کر کے ان کا داخلہ بیجھا۔
انہوں نے ریاضی میں ڈیڑھ سو نمبروں میں سے ڈیڑھ سو نمبر حاصل کیے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میٹرک میں جتنے نمبرز انہوں نے حاصل کیے یہ ان کی محنت کے ساتھ اساتذہ کی محنت اور والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔
عثمان کہتے ہیں کہ وہ ایف ایس سی میڈیکل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم ان کے پاس اتنے وسائل موجود نہیں۔
سکول ہیڈ ماسٹر محمد ضیغم شاہ شیرازی بتاتے ہیں کہ محمد عثمان نہایت محنتی اور ذہین طالب علم ہے جن کے گھریلو حالات ایسے ہیں کہ کبھی گھر کچن کا سامان ہوتا اور کبھی نہ ہوتا، اس کے باوجود مشکل ترین حالات میں پڑھائی جاری رکھ کر میٹرک میں اچھے نمبرز حاصل کیے۔
ہیڈ ماسٹر سمجھتے ہیں کہ اگر اس طالب علم کو مکمل سہولیات میسر ہوتیں تو بورڈ بھی ٹاپ کر سکتا تھا۔

ہیڈ ماسٹر 

عثمان 

No comments:

Post a Comment