Saturday, January 25, 2014

قصور۔۔۔مگرآخر کس کا؟؟؟

آج کے دور میں جتنا زور دے کر خواتین اور اُن کے شانہ بشانہ مرد حضرات لگے ہوئے ہیں "حقوق نسواں" کے لئے کام کرنے, لدتا ہے جلد ہی "حقوق مرداں"کے لئے کام کرنا پڑ جائے گا۔ کوئی اخبار، سائٹ، میگزین اُٹھا لیں! آپ خود دیکھ لیں گے کہ ہر وقت ان خواتین کو کوئی مسئلہ ضرور لاحق ہو گا اور ساتھ ہی ان کے مسئلے کے حل کے لئے کوئی نہ کوئی کام ضرور جاری ہوگا۔ ہم جتنا اس مسئلے پر بات چت، ڈائلاگ کرلیں اس میں نت نئی شکایات اور حکایات آپ کو ضرور ملیں گی مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان سب کا کوئی حل نظر نہیں آتا جہاں سے چلتے ہیں وہی پر واپس پہنچتے ہہیں اور مسئلہ، مسئلہ ہی بنا رہتا ہے۔

ہر مسئلہ کی ایک وجہ ہوتی ہے اور وہ وجہ ہی اس مسئلے کو پیدا کرتی ہے۔ یعنی جہاں وجہ ہوگی وہاں مسئلہ ضرور ہوگا۔ اب اس جملے کو پڑھ کر شاید یہ لگے کہ خواتین ہیں اس لئے یہ مسئلہ ہے اور اگر خواتین نہیں ہوں گی تو دنیا کے تمام مسئلے ختم ہو جائیں گے۔ کیونکہ ایک لطیفہ بھی ہے کہ اگر لڑکیاں نہ ہوتیں تو کتنا اچھا ہوتا کوئی لڑکا چوک میں کھڑا ہوتا نہ کوئی چھیڑ چھاڑ کرتا اور صوم و صلوۃ کا پابند ہوتا اور سیدھا جنت میں جاتا۔

ہمارے ہاں مسئلے کو جڑ سے اکھاڑنے کی جگہ اس کی جڑ کو لگا کر اس پہ مسئلے کا حل بونا شروع کیا جاتا ہے۔ ویسے قوانین بنائے گئے ہیں خواتین کو ہراساں ہونے سے بچانے اور کام کی جہگوں پر صحت مند ماحول کی فراہمی کے لئے، لیکن آپ کو شکایت کے لئے جن لوگوں کے پاس جانا ہوتا ہے اکثر وہ خود ہی ایسے ہوتے ہیں کہ آُ پکو سوچنا پڑتا ہے کہ میں ان کی شکایت کس کو کروں؟ بہت پڑھے لکھے اور سمجھ بوجھ والے افراد سے جب میری اس حوالے سے بات چیت ہوئی تو ان کا بھی یہی موقف تھا کہ اس قسم کے مسائل کے تدارک کے لئے قانونی چارہ جوئی سب سے فالتو اور نامناسب حل ہے۔

ہر بچہ اپنی ایک فطرت لےکر دنیا میں آتا ہے اور اس کے بعد نشوونما کے حالات اور دیگر اس طرح کی چیزیں آپ کو یہ بتاتی ہیں کہ آپ اگر لڑکے ہیں تو اس طرح پالے جائیں گے، اگر آپ لڑکی ہیں تو اس طرح کا رویہ رکھاجا ئے گا اور‎ ہمارے معاشرے میں بہت عام سی بات سمجھی جاتی ہے ایک بھائی کو واہ واہ اور ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ پالنے کی۔ اگر بھائی اکلوتا ہو تو پھر تو لاڈ پیار اور اس کے راج کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اکثر جہگوں پر بھائی کو مارنے کا حق تک دے دیا جاتا ہے۔ اکثر جب ان کو موقع ملے ساتھ والے گھر کی بہن چھیڑنے کا تب بھی ان کا یہ کام چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ٹالنے کی اور حمایت کے لئے کام کیا جاتا ہے۔

یہی ایک ایک بچہ آگے چل کر معاشرے کو چلانے کے لئے کام آتا ہے اور پھر جومعاشرے میں فتور بھرتے ہیں تو ہم یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ پتہ نہیں زمانے کو کیا ہو گیا ہے۔ میری کچھ پرائیوٹ سکول کی ٹیچرز سے بات چیت ہوئی اور ان کا کہنا تھا کہ ماؤں کا رویہ انتہا ‏‏ئی نامناسب اور بالکل بھی توجہ نہ دینے والا ہے۔ایک ٹیچر کے پاس بچہ صرف چھ گھنٹوں کے لئے ہوگا اور تب بھی صرف ایک نہیں ایک کلاس میں بیس سے پچاس بچے ہو سکتے ہیں۔ اب ٹیچر کس کو دیکھے اور کس کو نہیں۔

یہ ماں کا کردار تاریخی طور پر تسلیم شدہ ہے اور آج بھی آپ اس کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے آ پ کو بہرحال اپنے بچوں کو خود ہی پالنا ہوتا ہے میڈیا یا ٹیچر نے نہیں۔ اسی طرح جب آپ بھائی کو منع نہیں کر رہے اپنی بہن پر ہاتھ اُ ٹھانے سے تو کل کو وہ اپنی بیوی پر بھی ہاتھ اٹھائے گا۔ اسی طرح آج ایک معمولی سی چھچھوری حرکت کرنے پر اپنے بچے کو نہیں ڈانٹ رہے توکل وہ کچھ بھی کر دے گا اور برا نہیں سمجھے گا۔

آج جو ہمارے پاس ٹین ایج نسل ہے اس کو دیکھ لیں آج سے دس سال بعد اس نے معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کرنا ہے کیا ہم اس نسل کو اس قابل بنا رہے ہیں کہ یہ نسل ہمیں مثالی معاشر دے سکے۔۔۔۔۔۔۔؟



ہم سب کو نہیں سنوار سکتے ہم سے سوال ہر بچے کے بارے میں نہیں ہوگا' ماں باپ سے سوال صرف ان کی اولاد اور اس اولاد کے افعال کے لئے ہوگا۔ ذمہ داری کے بارے میں ماں باپ کل کو یہ جواب دے سکیں گے انھوں نے اپنے بچوں کی تربیت بہت عمدہ اور خوب کی ہے اور وہ اس سے مطمئن بھی ہیں کیا یہ ممکن ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

Sana Rehman
Lahore, Pakistan

No comments:

Post a Comment